
🔹 تعارف
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حیران کن بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان “مکمل اور جامع جنگ بندی” پر اتفاق ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق دونوں ممالک باضابطہ طور پر جنگ کے خاتمے کا اعلان کریں گے۔ تاہم، عرب میڈیا کے مطابق ابھی تک دونوں ممالک نے اس جنگ بندی کی کوئی سرکاری تصدیق نہیں کی ہے، جس کے باعث شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔
🔹 ٹرمپ کا سوشل میڈیا پیغام
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر ایک پیغام میں اعلان کیا کہ:
“سب کو مبارک ہو، اسرائیل اور ایران کے درمیان مکمل جنگ بندی طے پا گئی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک 6 گھنٹے کے اندر اپنی آخری کارروائیاں مکمل کریں گے، اور پھر جنگ بندی 12 گھنٹوں کے لیے لاگو ہوگی۔ اس کے بعد دنیا بھر میں “12 روزہ جنگ” کے خاتمے کا اعلان کیا جائے گا۔
🔹 جنگ بندی کا مرحلہ وار منصوبہ
ٹرمپ نے اپنے پیغام میں ایک ترتیب وار جنگ بندی منصوبہ بھی شیئر کیا:
پہلے 6 گھنٹے: ایران اور اسرائیل اپنی جاری کارروائیاں ختم کریں گے۔
گھنٹہ 7 تا 12: ایران جنگ بندی کا آغاز کرے گا۔
12ویں گھنٹے کے بعد: اسرائیل جنگ بندی میں شامل ہوگا۔
24 گھنٹے مکمل ہونے پر: جنگ کو سرکاری طور پر ختم سمجھا جائے گا۔
ٹرمپ نے اس اقدام کو دونوں ممالک کی دانشمندی اور حوصلے کا ثبوت قرار دیا اور دعا کی کہ خدا مشرق وسطیٰ کو سلامتی عطا کرے۔
🔹 سرکاری تصدیق کی غیر موجودگی
عرب میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل اور ایران دونوں نے اب تک اس جنگ بندی پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔ اس کے باعث بین الاقوامی تجزیہ کاروں اور میڈیا میں اس دعوے کی سچائی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ اعلان یا تو قبل از وقت ہے یا سیاسی مقاصد کے لیے کیا گیا ہے۔
🔹 عالمی خدشات اور ممکنہ اثرات
اگر یہ جنگ بندی حقیقی ثابت ہوتی ہے، تو یہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو کم کرنے میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ 12 دنوں سے جاری جنگ سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا تھا، جس کا اثر عالمی منڈیوں پر بھی پڑا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کسی بھی جنگ بندی کو قابل اعتماد بنانے کے لیے باضابطہ معاہدے، بین الاقوامی نگرانی، اور دونوں فریقین کی رضا مندی ضروری ہوتی ہے۔
🔹 نتیجہ
ٹرمپ کی جانب سے کیا گیا اعلان اگرچہ خوش آئند ہے، مگر جب تک اسرائیل اور ایران سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کرتے، تب تک یہ صرف ایک دعویٰ ہی تصور کیا جائے گا۔ دنیا بھر کی نظریں اب ان دونوں ممالک کی پالیسی اور ردعمل پر لگی ہوئی ہیں۔