
پاکستان کو 2025-26 میں 23 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ادا کرنا ہوگا
اسلام آباد: پاکستان کو مالی سال 2025-26 کے دوران 23 ارب ڈالر سے زائد کا بیرونی قرضہ ادا کرنا ہے، جس میں بین الاقوامی بانڈز، تجارتی قرضے، کثیرالملکی اداروں اور دوطرفہ قرض دہندگان کی رقم شامل ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، حکومت دوست ممالک سے 12 ارب ڈالر کے ڈپازٹس کی ری شیڈولنگ (rollover) کی توقع رکھتی ہے تاکہ مالی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔
ادائیگی کی تفصیل
23 ارب ڈالر میں سے 12 ارب ڈالر مختلف دوست ممالک کے ڈپازٹس پر مشتمل ہیں، جن میں:
-
سعودی عرب سے 5 ارب ڈالر
-
متحدہ عرب امارات سے 2 ارب ڈالر
-
قطر سے 1 ارب ڈالر
-
کویت سے 700 ملین ڈالر کے پرانے ڈپازٹس شامل ہیں۔
باقی 11 ارب ڈالر وہ قرضے ہیں جو عالمی مالیاتی اداروں، بانڈ ہولڈرز اور تجارتی قرض دہندگان کو ادا کیے جائیں گے۔ ان میں یورو بانڈز، کمرشل لونز، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور دیگر شامل ہیں۔
بانڈز اور کمرشل قرضوں کی واپسی
-
500 ملین ڈالر کا یورو بانڈ ستمبر 2025 میں میچور ہو رہا ہے، جو 2015 میں 8.25 فیصد شرح سود پر جاری کیا گیا تھا۔
-
1 ارب ڈالر کا دوسرا یورو بانڈ اپریل 2021 میں جاری کیا گیا تھا، جو رواں مالی سال میں واپس کرنا ہوگا۔
مجموعی تقسیم:
قرض کی قسم | رقم |
---|---|
یورو بانڈز اور سود | 1.7 ارب ڈالر |
تجارتی قرضے | 2.3 ارب ڈالر |
کثیرالملکی ادارے | 2.8 ارب ڈالر |
دوطرفہ قرض دہندگان | 1.8 ارب ڈالر |
چینی SAFE ڈپازٹس | 4 ارب ڈالر |
بانڈز کی نئی اجراء میں رکاوٹیں
وزارت خزانہ نے اس سال “پانڈا بانڈ” جاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، مگر عالمی شرح سود کی بلند سطح اور ملکی سیاسی غیر یقینی صورتحال کے باعث یہ عمل فی الحال تعطل کا شکار ہے۔
اسی طرح نئے یورو بانڈ یا سکوک بانڈ کا اجرا بھی ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد کمزور ہوا ہے، اور 10 فیصد سے زیادہ کی متوقع شرح سود مقامی سطح پر قابل قبول نہیں۔
قرض اور معیشت پر اثرات
پاکستان کا Debt-to-GDP Ratio حالیہ برسوں میں مہنگائی کی وجہ سے بظاہر بہتر ہوا تھا، مگر اب جب کہ افراط زر میں کمی اور معاشی سست روی جاری ہے، یہ تناسب دوبارہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
مالیاتی ماہرین کے مطابق، قرض کی ری اسٹرکچرنگ اور مؤثر پالیسیوں کے بغیر پاکستان کو مستقبل میں مزید مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔