لاہور: آلودگی کی زد میں — حل یا خواب؟
دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل لاہور اب حکومتِ پنجاب کی نئی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، جہاں ایک “ڈسٹ فری” منصوبہ متعارف کروایا گیا ہے۔
یہ منصوبہ 25 جون کو لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے ہیڈکوارٹر میں منعقد اجلاس میں منظور ہوا، جس کی صدارت سیکریٹری ہاؤسنگ نورالامین مینگل نے کی۔
گرد و غبار کا شہر: لاہور کی حقیقت
13 ملین سے زائد آبادی والا لاہور کئی برسوں سے فضائی آلودگی اور گرد و غبار سے متاثر ہے۔
ایل ڈبلیو ایم سی کے مطابق شہر میں روزانہ 5000 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، جو سڑکوں، گلیوں اور تعمیراتی سائٹس پر گرد کی شکل میں بکھر جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں موجود خطرناک ذرات انسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں، خصوصاً سانس کی بیماریوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
منصوبے کی تفصیل اور ممکنہ رکاوٹیں
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر کاشف امجد، جو ماحولیات کے ماہر اور پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے:
“لاہور کو ڈسٹ فری بنانا ممکن ہے مگر اس کے لیے طویل مدتی حکمت عملی، پالیسی پر عمل درآمد، اور شہری شراکت داری لازم ہے۔”
ان کے مطابق تعمیراتی دھول، غیرمنظم کچرا، اور گاڑیوں کا دھواں تین بڑے عوامل ہیں جن سے نمٹنا ضروری ہے۔
انجینیئرز کا موقف
انجینیئر احمد خان کا ماننا ہے کہ:
“کمرشل عمارتوں اور تعمیراتی منصوبوں پر سخت ایس او پیز اور جرمانے لازم ہوں گے، ورنہ یہ منصوبہ صرف فائلوں میں خوبصورت لگے گا۔”
چیلنجز: مشینری، آگاہی، اور نگرانی
واسا اور ایل ڈبلیو ایم سی جیسے اداروں کے پاس ناکافی مشینری اور افرادی قوت ہے۔
تعمیراتی کمپنیاں اکثر معیار کی خلاف ورزی کرتی ہیں تاکہ لاگت کم کی جا سکے۔
شہریوں کی آگاہی اور ان کے طرز عمل میں تبدیلی نہ لانا سب سے بڑا خطرہ ہے۔
نگرانی کا مؤثر نظام درکار
ماہرین کی رائے میں سخت ایس او پیز کے نفاذ کے ساتھ ساتھ شہری بلدیات اور پرائیویٹ سیکٹر کو متحرک کرنا لازمی ہوگا۔
سڑکوں کی دھلائی، واٹر سپرنکلرز، گرین بیلٹس اور کچرے کی مؤثر صفائی کے ذریعے بہتری لائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ حکومتی ادارے سنجیدہ ہوں۔
کیا واقعی لاہور صاف ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر کاشف امجد کے مطابق:
“اگر منصوبہ نیک نیتی سے چلایا جائے تو تین سے پانچ سال میں نمایاں تبدیلی ممکن ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ پالیسی صرف اجلاسوں اور اشتہاروں تک محدود نہ ہو۔”