
غزہ میں غیر مسلح شہریوں پر فائرنگ، جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ
غزہ / تل ابیب: اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی ایک ہولناک رپورٹ نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، جس میں اسرائیلی فوجیوں اور افسران نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں امداد کے منتظر غیر مسلح فلسطینیوں پر فائرنگ کرنے کا براہِ راست حکم دیا گیا تھا۔ یہ واقعات غزہ میں ان امدادی مراکز پر پیش آئے جہاں فلسطینی عوام خوراک اور طبی مدد کے حصول کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
فوجی افسر کا بیان: “یہ ایک قتل گاہ ہے”
ہاریٹز کی رپورٹ میں ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے اپنی گواہی میں کہا:
“یہ ایک قتل گاہ ہے جہاں میں تعینات رہا، روزانہ ایک سے پانچ افراد کو گولیاں ماری جاتی تھیں۔ ہمیں فلسطینیوں پر گولی چلانے کو کہا گیا، جیسے وہ کوئی مسلح گروہ ہوں۔”
اہلکار کے مطابق فوج آنسو گیس یا دیگر غیر مہلک ذرائع کے بجائے براہِ راست فائرنگ کو “رابطے کا ذریعہ” بنائے ہوئے ہے۔
ملٹری پراسیکیوٹر کا اقدام
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کے ملٹری پراسیکیوٹر کے دفتر نے اعلیٰ قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ امدادی مراکز پر پیش آنے والے ان واقعات کی تحقیقات جنگی جرائم کے تناظر میں کی جائیں۔ ملٹری پراسیکیوٹرز ان گواہیوں کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ممکنہ علامت ہو سکتی ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت: 549 افراد شہید
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق مئی کے اختتام تک امدادی مراکز کے قیام کے بعد سے کم از کم 549 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین، بزرگوں اور بچوں کی ہے۔ ان میں سے اکثر شہری اس وقت شہید ہوئے جب وہ امداد کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے۔
امریکی فنڈنگ اور انسانی حقوق کے خدشات
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ امریکی حکومت نے ان مراکز کے لیے صرف 30 ملین ڈالر کی منظوری دی، باوجود اس کے کہ انسانی حقوق کے وکلاء نے خبردار کیا تھا کہ یہ امداد اسرائیلی فوج کے ممکنہ جنگی جرائم میں معاون بن سکتی ہے۔
عالمی ردعمل اور قانونی چیلنجز
عالمی برادری، خاص طور پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور وکلاء، ان انکشافات پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ واضح جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، اور اگر اسرائیلی حکومت نے شفاف تحقیقات نہ کیں تو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کو مداخلت کرنا پڑے گی۔