اسلام آباد ہائی کورٹ کا وفاقی حکومت کو اہم ہدایت، تحقیقات 4 ماہ میں مکمل کرنے کی تاکید
اسلام آباد (رضوان قاضی): اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ توہینِ مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی کمیشن 30 دن کے اندر قائم کرے۔ عدالت نے مزید ہدایت دی کہ کمیشن 4 ماہ میں اپنی کارروائی مکمل کرے، تاہم اگر ضرورت ہو تو عدالت سے مزید وقت لیا جا سکتا ہے۔
عدالت کی واضح ہدایات
یہ فیصلہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سنایا، جنہوں نے زور دیا کہ ایسے حساس معاملات میں انصاف، شفافیت اور تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنایا جانا چاہیے۔
کومل اسماعیل کی گمشدگی کا معاملہ
سماعت کے دوران کومل اسماعیل کی گمشدگی کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ کومل کا شناختی کارڈ بلاک کیا جا چکا ہے، اور اس پر چار سمیں رجسٹرڈ تھیں، لیکن نومبر سے کوئی بھی نمبر فعال نہیں۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ درخواست 14 ستمبر کو دائر کی گئی تھی جبکہ کومل نومبر 2024 میں لاپتہ ہوئی۔
ایجنسی نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ کومل ملک سے باہر نہیں گئیں اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں شامل ہے۔ تلاش کا عمل جاری ہے۔
ڈیجیٹل شواہد پر سوالات
ایڈووکیٹ ہادی علی چٹھہ نے بتایا کہ تین نمبروں کی واٹس ایپ ڈیٹا کی درخواست موبائل کمپنیوں کو دی گئی تھی، لیکن کمپنیوں کے وکلاء نے بیان دیا کہ واٹس ایپ کالز کے ریکارڈز دستیاب نہیں اور فون نمبروں کے کال ڈیٹیل ریکارڈز صرف ایک سال کے لیے محفوظ ہوتے ہیں۔
جسٹس اعجاز اسحاق خان نے تجویز دی کہ اگر ضرورت پڑی تو آئی ایس آئی سے مدد لی جا سکتی ہے، کیونکہ اس معاملے میں انسانی جانوں کا تحفظ سب سے اہم ہے۔
توہینِ مذہب الزامات میں تضاد
مقدمے میں نیک محمد پر ایمان کی جانب سے “پھانسنے” کا الزام لگایا گیا، جسے شراز فاروقی نے دائر کیا۔ تفتیش کے دوران اس الزام کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے — صرف پانچ تصاویر ملیں جو نیک محمد کے موبائل سے برآمد ہوئیں اور انہی کو بنیاد بنا کر مقدمہ درج کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شراز فاروقی واقعے سے ایک ہفتہ قبل ملزم کے ساتھ رابطے میں تھا، جس سے شک پیدا ہوا۔ تاہم شراز نے عدالت میں آ کر اس رابطے کی تردید کی۔
عدالت کا حتمی فیصلہ
دلائل سننے کے بعد جسٹس اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ عدالت کا کام یہ دیکھنا ہے کہ کمیشن کی تشکیل کے لیے کافی مواد موجود ہے یا نہیں۔ عدالت نے اس بنیاد پر کمیشن بنانے کی درخواست منظور کر لی۔
عدالت نے حکم دیا کہ وفاقی حکومت 30 دن کے اندر کمیشن تشکیل دے اور وہ 4 ماہ میں اپنی رپورٹ مکمل کرے۔ اگر ضرورت ہو تو کمیشن عدالت سے وقت میں توسیع کی درخواست کر سکتا ہے۔