جرمنی میں چینی AI ماڈل ‘ڈیپ سیک’ پر پابندی کا خدشہ


ڈیٹا پرائیویسی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزی پر جرمن حکام متحرک

جرمنی میں چینی مصنوعی ذہانت (AI) ماڈل ڈیپ سیک (DeepSeek) پر پابندی کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ جرمن ڈیٹا پروٹیکشن کمشنر مائیکے کمپ نے ایپل اور گوگل سے کہا ہے کہ وہ ڈیپ سیک کو اپنے ایپ اسٹورز سے ہٹا دیں کیونکہ یہ ایپ جرمن صارفین کا ڈیٹا چین منتقل کر رہی ہے، جس سے صارفین کی پرائیویسی کو خطرہ لاحق ہے۔


ڈیپ سیک پر کیا اعتراضات ہیں؟

ڈیپ سیک ایک ایسا چینی AI ماڈل ہے جس نے جنوری 2025 میں دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی کارکردگی OpenAI اور ChatGPT کے برابر ہے، مگر کم لاگت میں۔ تاہم یورپ اور امریکا میں اس ایپ پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں، خصوصاً اس کی ڈیٹا سیکیورٹی پالیسیوں پر۔

ڈیپ سیک کی پرائیویسی پالیسی کے مطابق، صارفین کی اپ لوڈ کردہ فائلیں اور AI سے متعلق درخواستیں چین میں موجود سرورز پر اسٹور ہوتی ہیں۔ جرمن کمشنر کے مطابق چین کے قوانین حکام کو ڈیٹا تک رسائی کی اجازت دیتے ہیں، جو کہ یورپی ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ (GDPR) کے خلاف ہے۔


کمشنر کمپ کا مؤقف

کمشنر کمپ نے بتایا کہ:

“ہم نے مئی 2025 میں کمپنی سے مطالبہ کیا کہ وہ یورپی ڈیٹا ٹرانسفر اصولوں پر عمل کرے یا رضاکارانہ طور پر ایپ کو جرمنی میں بند کرے۔ لیکن کمپنی نے نہ کوئی تعاون کیا اور نہ تسلی بخش ثبوت دیے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ ڈیپ سیک یہ واضح کرنے میں ناکام رہا کہ وہ کس طرح یورپی یونین کے معیار کے مطابق ڈیٹا کو چین میں محفوظ رکھتا ہے۔


یورپی ممالک میں پابندیاں

یہ پہلا موقع نہیں کہ ڈیپ سیک یورپ میں تنقید کی زد میں آیا ہو۔

  • اٹلی نے سال کے آغاز میں اس ایپ پر پابندی عائد کر دی تھی۔

  • نیدرلینڈز میں اسے سرکاری ڈیوائسز پر استعمال کرنے پر مکمل پابندی ہے۔


امریکا میں بھی تحفظات

امریکا میں قانون ساز ایک ایسا بل لانے کی تیاری کر رہے ہیں جس کے تحت چینی AI ماڈلز کو امریکی سرکاری اداروں میں استعمال کرنے پر پابندی ہو گی۔ رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق، ڈیپ سیک مبینہ طور پر چین کی فوج اور انٹیلیجنس اداروں کو تعاون فراہم کرتا ہے۔


ڈیپ سیک، ایپل اور گوگل کا ردعمل؟

ابھی تک ڈیپ سیک کی طرف سے اس معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا، اور ایپل و گوگل نے بھی فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

جرمن حکام کی درخواست کے بعد توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں ایپ کی دستیابی پر کوئی بڑا فیصلہ سامنے آ سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top