پراسرار انٹرا پارٹی الیکشن

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن ہوگئے۔ لیکن الیکشن میں جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ انٹرا پارٹی الیکشن کے ضابطوں کے بالکل برعکس ہے۔ اس لئے کوئی بھی سیاسی جماعت یا عوام اس الیکشن کو تسلیم نہیں کر رہے۔ بلکہ خود پی ٹی آئی کے اندر سے بھی اختلاف کے اشارے مل رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تنقید پی ٹی آئی کے بانی ارکان نے کی ہے۔ ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے سابقہ رہنمائوں نے بھی اس الیکشن کو ٹوپی ڈرامہ قرار دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی مذکورہ الیکشن کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے یہ انٹرا پارٹی الیکشن کس آئین کے تحت ہوئے ہیں۔ کیونکہ جون 2022ء میں پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پیش ہوکر آگاہ کیا کہ پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن ہوگئے ہیں۔ اور پارٹی کے آئین 2019ء کے آرٹیکل 5کی شق 5میں ترمیم بھی تحریری طور پر جمع کرادی ۔ اس ترمیم کے تحت پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے ووٹنگ اور الیکٹوریل کالج کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان جمع شدہ کاغذات جو اس ترمیم سے متعلق تھے کا جائزہ لینے کے بعد پی ٹی آئی کو مطلع کرکے بعض اعتراضات اور خامیوں کی نشاندہی کی اور ان کو درست کرنے کی ہدایت کی۔ علاوہ ازیں پارٹی کو یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ نئے آئین سے متعلق وضاحت بھی پیش کرے۔

بجائے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے دو مرتبہ یاددہانی کے کہ اس معاملے کو صاف کردیں مارچ 2023ء میں پی ٹی آئی کے وکیل گوہر علی خان اور پارٹی کے ایک نمائندہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پیش ہوکر مذکورہ ترمیم کے بارے میں جمع کرائی گئی دستاویزات واپس لے لیںاور ایک بیان حلفی جمع کرایاکہ وہ یہ تمام دستاویزات واپس لے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت کرایا گیا انٹرا پارٹی الیکشن نیا آئین اور ترمیم سب کچھ پی ٹی آئی نے خود ہی کالعدم قرار دیا۔ اس تناظر میں پی ٹی آئی اس بات کی پابند ہوگئی کہ وہ فوری دوبارہ پارٹی الیکشن کرائے جو پارٹی آئین 2019ء کے تحت ہو۔

لیکن ایسا نہیں کیا گیا جو الیکشن رولز کی واضح خلاف ورزی تھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے پارٹی کے انتخابی نشان کے بارے میں، انٹرا پارٹی الیکشن کے بارے میں رولز کو دیکھتے ہوئے اور قومی انتخابات کے اعلان کے بعد پی ٹی آئی نے دوبارہ درخواست دی جس پر سماعت ہوئی اور 23نومبر 2023ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کو 20دن کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن کرانے اور پھر اس کے ایک ہفتہ کے اندر نتائج جمع کرانے کی ہدایت کی۔

پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا لیکن پھر نہایت جلدی میں2دسمبر کو انٹرا پارٹی الیکشن کرایا۔ جس میں سوائے نئے بننے والے چیئرمین کے نہ تو کارکن تھے نہ ہی الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار موجود تھے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس نام نہاد الیکشن میں کس نے ووٹ دیا اور کس کو دیا اور کیا پی ٹی آئی کارکنان اس پراسرار الیکشن سے آگاہ اور ان نتائج سے مطمئن ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی کے اس انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بہرحال فیصلہ تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کرنا ہے۔

پی ٹی آئی کے نو منتخب چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان،جو پی ٹی آئی کے وکیل تھے ،کے اس بیان نے انٹرا پارٹی الیکشن کو مزید مشکوک اور پراسرار بنا دیا ہے کہ پارٹی چیئرمین کا منصب اس وقت تک ان کے پاس رہے گا جب تک کہ سابقہ چیئرمین واپس نہیں آجاتےاور ان پرنااہلیت اور مقدمات ختم ہو جائیں گے تووہ دوبارہ پارٹی چیئرمین بنیں گے۔ یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ اس میں کتنا وقت لگے گا۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر 8فروری کو الیکشن ہوتے ہیں تو کیا پی ٹی آئی کے کارکن نئے منتخب چیئرمین کو تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کیسے ہوگی۔ کیا پاکستان میں پہلی بار وکلا سیاستدانوں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کریں گے ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کونسا ایسا سیاستدان ہوگا جو الیکشن لڑے گا۔ ووٹ دینے والے کون ہوں گے اور اگر سیاستدان نہیں ملیں گے تو کیا ٹکٹ لینے والے بھی وکلا ہی ہوں گے یہ چند اہم سوالات ہیں جن پر پی ٹی آئی کو غور کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اس الیکشن کو پتلی تماشہ اور دھوکہ قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے سوال اٹھایا ہے کہ اس جعلی الیکشن کے نتیجے میں منتخب عہدیداران جیل میں اور اکثر مفرور ہیں تو کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان اب مفروروں کو بھی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دیدے گا۔

پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری این جی او پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو متنازع قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ نہ تو ووٹر لسٹ دی گئی نہ دیگر رولز کو پورا کیا گیا نہ اکبر ایس بابر کو انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا تو یہ شفاف الیکشن کیسے ہوا۔ استحکام پاکستان پارٹی نے اس الیکشن کو ڈکٹیٹر شپ کی بدترین مثال قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس جعلی الیکشن کو کالعدم قرار دے۔ تحریک انصاف پارلیمنٹرین نے اس الیکشن کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا قرار دیا ہے۔ معلوم نہیں آگے کیا ہوگا یہ تو الیکشن کے فیصلے پر منحصر ہے۔ پی ٹی آئی کے بارے میں یہ کہنا سمجھنے والوں کیلئےکافی ہوگا کہ ’’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top