مولانا ابو الکلام آزاد سے روایت کیا جاتا ہے کہ ’’تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافیاں، انصاف کے ایوانوں میں ہوئی ہیں‘‘۔ اس قول کے حوالے سے پاکستانی عدلیہ کی ناانصافیاں، ملک کی روح اور جسم پر مسلسل کچوکے لگاتی رہی ہیں۔
جسٹس منیر کے بدنام زمانہ مولوی تمیز الدین کیس میں فیصلے کے بعد بھٹو پھانسی کیس نے تو اس بات پر مہر تصدیق ثابت کر دی کہ می لارڈز میں اگر غصہ، تعصب، حسد اور لالچ آ جائے تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
سب کو علم ہے کہ جسٹس مولوی مشتاق کا بھٹو سے ذاتی عناد تھا کہ اسلم ریاض حسین کو کیوں چیف جسٹس بنایا اور ہم نے قدرت کا انتقام بھی دیکھا کہ مولوی مشتاق کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا۔ اہل جنازہ میت کو چھوڑ کر بھاگ گئے، مولوی صاحب کی میت بیچاری اکیلی پڑی رہ گئی۔
ہماری روایت میں ہے کہ اسی دنیا میں بھی اعمال کا حساب دینا پڑ جاتا ہے۔ مولوی مشتاق کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا۔
جسٹس انوارالحق اور انکے ساتھی ججوں کی اکثریت بھی بھٹو صاحب سے اختلاف رکھتی تھی، کچھ خوف اور دباؤ کا شکار تھے، اسی لئے بھٹو کے خلاف فیصلہ دیا۔
جسٹس انوار الحق کو بھی اس فیصلے کے نتائج بھگتنا پڑے عالمی عدالت انصاف کے انتخاب میں بری طرح ہارے اور آخری عمر میں تنہائی کا شکار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
آج کل ذوالفقار علی بھٹو کیس دوبارہ ری اوپن ہوا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آج کی عدالت ماضی کے اس جوڈیشل مرڈر کی سیاہ تاریخ کیسے درست کرتی ہے۔
صرف بھٹو کیس ہی نہیں یہ بھی ثابت ہو چکا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف فیصلہ بھی سیف الرحمٰن اور نواز شریف کے دباؤ پر سنایا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ جسٹس قیوم اور جسٹس راشد عزیز کو مستعفی ہونا پڑا تھا، قدرت کا عجیب دستور دیکھیں کہ جسٹس قیوم نے ہی بینظیر کے خلاف فیصلہ سنایا اور بعد میں جب وہ مشرف دور میں اٹارنی جنرل بنے تو انہوں نےہی سوئس حکام کو خط لکھ کر بے نظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف مقدمات ختم کرنے کو کہا۔
آج کل عدلیہ کی ایک اور ناانصافی یعنی نواز شریف کے خلاف فیصلے بھی زیر بحث ہیں۔
حال ہی میں میاں نواز شریف نے جے آئی ٹی کے مجوزہ نام، وٹس ایپ کروانے والے جج شیخ عظمت سعید کا نام لیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے گریڈ 19 کی ایک خاتون کی پروموشن کی سفارش کی جب ان کا کام نہ ہو سکا تو انہوں نے ایک مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اڈیالہ جیل کی ایک کوٹھڑی وزیر اعظم کیلئے خالی ہے۔ ان ریمارکس پر وزیراعظم کی طرف سے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو احتجاجی خط لکھا گیا مگر اسکا کبھی جواب نہ دیا گیا۔
میرے پاس ایک معتبر ذریعہ کا دیا گیا وہ ڈاکومینٹ بھی موجود ہے جس میں انہی جج صاحب کے حمزہ شہباز شریف کے خلاف ریمارکس درج ہیں، یہ اس دور کی بات ہے جب جنرل مشرف کے دور میں یہ جج صاحب نیب کیلئے کام کرتے تھے۔
اس ڈاکومینٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ می لارڈز پہلے ہی سے شریف خاندان کے نہ صرف خلاف تھے بلکہ ان کے اس اختلاف کے باقاعدہ ثبوت موجود ہیں، جب انکا شریف خاندان سے نفرت اور تعصب کا تعلق تھا تو پھر ان کا فیصلہ تو نواز شریف کے خلاف ہی آنا تھا۔
انہی دنوں میں جب وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مقدمہ زیر سماعت تھا تو ایک ن لیگی وزیر خفیہ طور پر ایک می لارڈز سے ملے تو انہوں نے کہا نواز شریف استعفیٰ دیں ہم پر بہت دباؤ ہے، دلچسپ بات ہے کہ یہ وہی خواہش تھی جس کا اظہار جنرل ظہیر الاسلام نے ملک ریاض کے ذریعے نواز شریف سے کیا تھا، گویا آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام اور اس می لارڈ کا موقف حیران کن طور پر ایک ہی تھا، یہ بھی اطلاع موجود تھی کہ ایک می لارڈ کی شراب نوشی کی فلم ایک ادارے کے پاس تھی اور وہ اُس سے بلیک میل ہو رہے تھے۔
ایک اور می لارڈ جو سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل تھے انکے بڑے بھائی اتفاق گروپ میں ملازم تھے مگر وہاں سے نکال دیئے گئے اس وجہ سے یہ جج صاحب اور انکا خاندان شریف فیملی کے مخالف ہوگئے تھے، اسی می لارڈ کے بھائی ایک بار جدہ میں حسین نواز کی سٹیل ملز کا خفیہ دورہ کرتے ہوئے پکڑے گئے اور وہاں موقع پر ہی حسین نواز شریف نے انہیں پہچان کر انکی کلاس لی۔
انہی می لارڈ کے حوالے سے شریف خاندان کے پاس جج ارشد ملک کا ویڈیو ریکارڈ موجود ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ اس طاقتور می لارڈ نے انہیں ایک دن اپنے دفتر میں بلا کر پوچھا کہ نواز شریف کو کتنی سزا دینی ہے؟ ارشد ملک نے بتایا کہ اس مقدمے میں اتنی زیادہ سزا بنتی نہیں ہے اور یہ بھی بتایا کہ کتنی سزا دینی ہے اور ساتھ ہی اسی می لارڈ نے گواہوں اور بحث کے حوالے سے باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا۔
می لارڈ اسلام آباد کے ایک بہت بڑے پلازے کے لیگل ایڈوائزر تھے ان کا مقدمہ سپریم کورٹ میں لگا تو خود بینچ میں بیٹھ گئے جو کہ CLASH OF INTERESTتھا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے صریحاً خلاف تھا۔
نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے والے باقی می لارڈز کی اندرونی کہانیاں بھی اس وقت انٹیلی جنس بیورو اور شریف خاندان کے پاس محفوظ ہیں، ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔ آج جو کچھ کھلاڑی خان کے ساتھ ہو رہا ہے اس پر بھی انصاف کے ایوانوں کے کردار کے حوالے سے نت نئے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ بھٹو ہو یا بے نظیر، نواز شریف ہو یا یوسف رضا گیلانی سب کے ٹرائل اوپن عدالتوں میں ہوئے، عمران خان کا ٹرائل جیل میں کیوں؟ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا کیا کردار ہوگا، اس حوالے سے مکمل ابہام پایا جاتا ہے اسے واضح کیوں نہیں کیا جا رہا؟
ملک کی سب سے بڑی پارٹی جس کی پچھلی حکومت میں اکثریت تھی اور 2018ء میں وہ جیتی تھی اگر اسے الیکشن میں موقع نہیں دیا جاتا تو وہ الیکشن معتبر کیسے ہونگے۔ اس حوالے سے انصاف کے ایوانوں سے کوئی بڑا فیصلہ کیوں نہیں آ رہا کیس ایسا تو نہیں کہ آج کی عدلیہ ماضی کے غلط فیصلوں کو تو ٹھیک کر رہی ہے مگر آج پھر غلط فیصلے کر رہی ہے، جنہیں مستقبل میں ٹھیک کرنے کے لئے پھر کسی نئے مسیحا کا آنا ضروری ہو گا۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انصاف وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی بنا پر خاندان، قوم اور ملک متحد رہتے ہیں۔ ہم نے مشرقی پاکستانیوں سے بے حد ناانصافیاں کیں جس کا نتیجہ المیہ سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں نکلا۔
یاد رکھیں کہ اگر والدین بھی اپنے بچوں سے انصاف نہ کریں تو بچے انکے خلاف بغاوت کر کے ان سے الگ ہو جاتے ہیں ایسا ہر روز ہمارے سامنے ہوتا رہا ہے۔
عدلیہ نے حالیہ تاریخ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بہت زیادتیاں کیں، بے نظیر بھٹو کبھی اس عدالت میں اور کبھی اس عدالت میں انصاف کی بھیک مانگتی رہیں مگر متکبر اور بغض سے بھرے می لارڈز نے انہیں کبھی انصاف نہ دیا۔
نواز شریف کبھی مقتدرہ اور عدلیہ کے لاڈلے تھے مگر مقتدرہ سے لڑے تو عدلیہ کے بھی مبغوض و معتوب ٹھہرے اور پھر اس وقت کے می لارڈز نے انکے خلاف نفرت بھرے اور غیر منصفانہ فیصلے دیئے۔
آج وہی سلوک عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ تاریخ کے کٹہرے میں ماضی کے می لارڈز غلط ٹھہرے اور بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف ٹھیک ثابت ہوئے۔ یہ نہ ہو کہ آنیوالے دنوں میں آج کے می لارڈز غلط ثابت ہوں اور عمران خان درست.