نسل کشی جاری: اسرائیل کے امدادی مراکز پر حملوں میں صرف پانچ ہفتوں میں 600 فلسطینی شہید
غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت نے ایک نیا خطرناک رخ اختیار کر لیا ہے جہاں امدادی مراکز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ ہفتوں کے دوران کم از کم 600 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت ان شہریوں کی ہے جو خوراک اور طبی امداد کے حصول کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے۔
ایک ہی دن میں 67 شہادتیں، انڈونیشین اسپتال کے ڈائریکٹر اور اہل خانہ بھی جاں بحق
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آج کے دن اسرائیلی حملوں میں 67 افراد شہید ہوئے، جن میں 11 شہری امداد کی قطار میں کھڑے تھے۔ شہداء میں انڈونیشین اسپتال کے ڈائریکٹر اور ان کا خاندان بھی شامل ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلی حملے اب اسپتالوں اور طبی عملے کو بھی نہیں چھوڑ رہے۔
یہ رپورٹ قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ نے جاری کی ہے جس میں ان حملوں کو باقاعدہ حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
48 گھنٹوں میں 250 افراد نشانہ، اقوام متحدہ کی شدید تشویش
اعداد و شمار کے مطابق محض 48 گھنٹوں میں 250 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ تمام ہلاکتیں امدادی مراکز اور فوڈ اسٹیشنز کے قریب ہوئیں، جنہیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق محفوظ مقامات تصور کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ پہلے ہی ان مراکز کو “موت کا پھندا” قرار دے چکی ہے، کیونکہ یہ امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ ہیں اور بار بار حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
یو این آر ڈبلیو اے: بھوکے شہری جان بچانے کے بجائے کھانے کی تلاش میں جان دے رہے ہیں
اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے کے نمائندے سیم روز نے کہا ہے کہ:
“غزہ کے شہری بھوک کی شدت سے مجبور ہو کر امداد کی تلاش میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔”
ان کے مطابق، موجودہ صورتحال میں لوگ زندہ رہنے کے لیے روزانہ ایسی خطرناک جگہوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں وہ جانتے ہیں کہ موت ان کا انتظار کر رہی ہے۔
7 اکتوبر 2023 سے اب تک 56,531 شہادتیں
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی بمباری اور جارحیت میں کم از کم 56,531 فلسطینی شہید اور 1,34,592 زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جنگ کا سب سے بڑا نشانہ معصوم شہری ہیں۔
عالمی برادری خاموش، عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر
اگرچہ اقوام متحدہ، ریڈ کراس اور دیگر عالمی تنظیموں نے ان حملوں کی مذمت کی ہے، تاہم ابھی تک کوئی مؤثر عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔ انسانی امداد کے راستے یا تو بند ہیں یا خود نشانہ بن رہے ہیں۔