کل 30 نومبر کو پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کا یوم تاسیس ہے۔ پارٹی 56سال کی ہوگئی اس عمر کو نہ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو پہنچ سکے نہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو ۔یہ الگ بات ہے کہ ان دونوں کا ’’لہو‘‘ شامل نہ ہوتا تو شاید وقت سے بہت پہلے ہی پارٹی ختم ہوجاتی۔ آج یہ پارٹی ایک نوجوان بلا ول بھٹو کے پاس ہے جس کا چیلنج بیرونی سے زیادہ اندرونی سیاسی کشمکش ہے اور یہ آج سے نہیں اس وقت سے ہے جب پارٹی نے تقریباً یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ 2008ءکے الیکشن کے بعد چار ’پی‘ والی جماعت ختم کرکے اصل پی پی پی جس کا انتخابی نشان ’’تلوار‘‘ ہے کو انتخابی میدان میں واپس لایا جائے گا اور جہاں تک میری معلومات ہیں جس کی پارٹی کے انتہائی قابل اعتماد ذرائع تصدیق کرتے ہیں ’’تلوار اور تیر‘ والی پی پی پی کے درمیان ایک ’’تحریری معاہدہ‘‘ بس موجود ہے۔
’’تیر‘‘ کا نشان پارٹی کی مجبوری تھی جبکہ ’’تلوار‘‘ بھٹو اور 1967ء کی پارٹی کا نشان ہے۔بھٹو کو پھانسی 51برس کی عمر میں ہوئی، بینظیر بھٹو کی شہادت کے وقت عمر 54سال ، مرتضیٰ بھٹو 42 سال اور شاہ نواز کی موت صرف 26سال کی عمر میں ہوئی، ان سب میں صرف ذوالفقار علی بھٹو واحد شخص تھے جنہوں نے ’’سیاست‘‘ کا انتخاب خود کیا اور انتہائی نوجوانی کی عمر میں پاکستان کے وزیر خارجہ بنے اور ثابت کیا کہ تجربہ سے زیادہ غیر معمولی ذہانت کی اہمیت ہوتی ہے ۔ صرف 20-22سالہ سیاسی کیریئر میں انہو ں نے وہ مقام پایا جو ’’تجربہ کار‘‘ سیاستدان 70سال کی عمر میں بھی نہ پاسکے۔
اس جماعت کی بنیاد میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کئی سیاستدانوں کا ہاتھ مگر سب سے پہلے جناب جے اے رحیم اور ڈاکٹر مبشر حسن اپنے چند دوستوں کے ساتھ بھٹو سے ملے جو اس وقت فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تحریک کی قیادت کررہے تھے۔ رحیم اور مبشر نے ایک ’’سوشلسٹ پارٹی‘‘ بنانے کی تجویز دی بھٹو نے اتفاق کیا مگر مشورہ دیا کہ اس میں کچھ اسلامی کلر لانا ضروری ہے لہذا کنونشن میں کئی دنوں کی بحث و مباحثہ کے بعد اس کا نام پاکستان پیپلزپارٹی رکھ دیا گیا۔1972ء سے 1977ء تک پی پی پی کی حکومت میں پارٹی غیر مقبول ہونے لگی گورننس سے لے کر سیاسی انتقام کی سیاست نے خاص طور پر شہری علاقوں میں نقصان پہنچایا البتہ پارٹی کی اصل نرسری مزدور، کسان اور نوجوان کوپارٹی سے جوڑ دیا، لہذا جب بھٹو نے معیاد پوری ہونے سے سال بھر پہلے الیکشن کروائے تو اس کے مخالفین نے پاکستان قومی اتحاد بنالیا۔
پی این اے کے رہنما مولانا شاہ احمد نورانی کے بقول الیکشن میں دھاندلی نہ بھی ہوتی تو بھٹو جیت رہا تھا البتہ اپوزیشن جماعتوں کو اچھی خاصی سیٹیں ملتیں۔ 5؍جولائی 1977ء کو مارشل لا لگا تو جنرل ضیاء نےنہ اکتوبر1977ء میں الیکشن کرائے نہ ہی 1979ء میں اسے خطرہ تھا جو کہ درست تھا کہ پی پی پی جیت جائے گی۔ اسلئےسب سے پہلے پارٹی کو سیاسی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور پہلے مرحلے میں الیکشن کمیشن کے ذریعے اس کے انتخابی نشان ’’تلوار‘‘ کو ڈی لسٹ کردیا گیا۔بھٹو جیل میں تھے تو بیگم نصرت نے الیکشن مہم ایسی چلائی کہ پارٹی کے تجربہ کار سیاستدانوں کو پیچھے چھوڑ دیا مگر بعد میں سیاسی کشمکش کے نتیجے میں پھانسی کے بعد بینظیر بھٹو نے قیادت سنبھال لی۔
ماں، بیٹی میں سیاسی سوچ کا نہیں ’’اپروچ‘‘ کا فرق تھا۔ ’’ناتجربہ کار‘‘ بی بی نے پارٹی میں نئی جان ڈال دی اور بہت جلد پارٹی کارکنوں کو نیا حوصلہ ملا۔بی بی ’’تجربہ کار‘‘ ہوئیں تو سیاسی مزاحمت سے سیاسی مصلحت اور پھر مفاہمت تک گئیں مگر 2007ءمیں انہیں جنرل مشرف کے ساتھ این آر او پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ وہ پاکستان گئیں تو ان پر خود کش حملہ ہوا خطرہ ٹلا نہیں تھا وہ دبئی واپس گئیں پھر تمام این آر او توڑ کر آئیں تو شہید کردی گئیں۔ 27؍دسمبر2007ءکو بی بی کی شہادت ہوئی۔ دوسرے روز تدفین کے بعد پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا۔ آصف علی زرداری اجلاس میں شرکت کے لئے آئے تو کہتے ہیں قریب بیٹھے ہوئے پی پی پی پی کے صدر مخدوم امین فہیم کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ،’’آپ پارٹی کے وزیراعظم کے امیدوار ہو‘‘۔ بعد میں زرداری صاحب نے بی بی کی ’’وصیت‘‘ پڑھ کر سنائی اور پھر انہوں نے بلاول بھٹو کو پی پی پی کا چیئرمین مقرر کیا۔
ساتھ میں زرداری صاحب نے یہ بھی اعلان کیا کہ پارٹی کا چیئرمین بلاول ہے اوروہ جب تک بڑا نہیں ہو جاتا تو وہ شریک چیئرمین رہیں گے۔ اب مجھے نہیں پتا کہ بلاول کب تک بڑا ہوگا۔خیرپی پی پی کی سیاست بی بی کے زمانے میں ہی 70کلفٹن سے بلاول ہائوس منتقل ہوچکی مگر اب ایسا تاثر ابھر کر سامنے آیا ہے کہ گڑھی خدا بخش کی سیاست نواب شاہ کے کنٹرول میں ہے۔ شاید زرداری صاحب سے بنیادی سیاسی غلطی بہت ہی کم عمری میں بلاول کو چیئرمین بنانا تھا۔
تجربہ کبھی بھی بڑی پوزیشن ملنے سے نہیں پارٹی کے اندر کام سے آتا ہے۔بلاول نے 2015میں جناح گرائونڈ پر جو تقریر کی تھی وہ جذبات اور نظریات سے بھری تھی جس میں انہوںنے اپنی ہی سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ میرے خیال میں وہ تقریر زرداری صاحب کے لئے ’’خطرے کی گھنٹی‘‘ تھی۔ انہوں نے فوراً لاہور جاکر ورکرز کنونشن میں بلاول کے نا آنے پر تقریر کرتے ہوئے اسے ’’ناتجربہ کار اور بچہ‘‘ کہہ دیا۔اب وہ بچہ جوان ہے اور پارٹی کا مکمل اختیار چاہتا ہے۔ زرداری صاحب کو 2015 میں دبئی میں چوہدری اعتزاز احسن نے جو مشورہ دیا تھا کہ خود ان سمیت اس عمر کے سب سیاستدانوں کو پیچھے ہٹ جانا چاہئے مگر زرداری صاحب نے دونوں ٹوپیاں پہن لیں وہ پی پی پی کے شریک چیئرمین بھی ہیں اور چار پی والی کے صدر بھی تو ٹکٹ تو وہی دیں گے۔
اب بلاول کے ساتھ آصفہ کا نام آنا شروع ہوگیا ہے یہ پتا نہیں کہ وہ نواب شاہ سے لڑیں گی کے لاڑکانہ یا چترال سے۔مجھے 2008 کے بعد کے تحریری معاہدےکے مندرجات کا تو زیادہ پتا نہیں لیکن یہ معاہدہ ہونا خود اس بات کی گواہی ہے کہ معاملہ اتنا بھی غیر سنجیدہ نہیں۔ پارٹی کی اندرونی سیاسی کشمکش ’’تلوار کی ضرب‘‘ سے لے کر تیر کے نشانہ پر لگنے تک کی ہے۔ بلاول نے انتخابی مہم میں ایک بیانیہ بناکر پیش کیا پھر پلٹ کر دیکھا تو جیسے بقول شاعر ؎
دیکھا جو تیر کھا کر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی