اگر آپ پاکستان کے شہری ہیں اور آپ کے خلاف 34 سال قبل سول کورٹ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور آپ ایک صبح عدالت میں پہنچتے ہیں اور اچانک آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے خلاف مقدمہ مکمل ہو چکا ہے اور کیا گیا ہے؟ کیا مقدمہ باطل تھا؟
آپ یقیناً بہت خوش ہوں گے۔ لاہور کے ایک شہری گلزار احمد اس مہینے کے شروع میں ایسی ہی صورتحال کا مشاہدہ کرنے والے خوش قسمت تھے جب سول عدالت نے ان کے خلاف 34 سالہ کیس کو بالآخر خارج کر دیا۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا، “دوسرے فریق نے مجھ پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا حالانکہ یہ واضح طور پر لکھا ہوا تھا کہ شرائط پوری نہ ہونے کی صورت میں کوئی بھی فریق معاہدہ ختم نہیں کر سکتا۔”
لاہور کی سول جج آمنہ آصف بٹ نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے لکھا کہ کوئی وجہ نہیں کہ اس کیس کو 34 سال کے لیے منجمد کر کے ریڑھی کی طرح ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھیج دیا جائے۔ یہ ایک چھوٹا سا معاملہ تھا اور اسے حل کرنا تھا۔
یہ مقدمہ 1990 میں دائر کیا گیا تھا اور عدالت کو فیصلے تک پہنچنے میں 34 سال لگے۔
ایک اور شہری مظفر علی کی بھی ایسی ہی کہانی ہے جس نے 1992 میں جائیداد کے ایک مقدمے میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اسے جائیداد کی وراثت کا حق حاصل ہے لیکن یہ مقدمہ 32 سال تک چلا اور حال ہی میں اس کے حق میں حتمی فیصلہ سنایا گیا۔ .
پاکستان کی عدالتوں میں پرانے مقدمات کی جلد سماعت نہ صرف سول عدالتوں یا فوجداری عدالتوں میں کی جاتی ہے بلکہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی پرانے مقدمات کی سماعت شروع کی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ہوئی۔ مجھے ٹرائل کورٹس کو جلد از جلد فیصلے کرنے کا پابند بنانا چاہیے۔
لاہور کے سیشن جج نے دو ماہ قبل ایک میٹنگ میں تمام ججوں سے کہا کہ وہ پہلے پرانے مقدمات کا ریکارڈ اکٹھا کریں اور پھر اپنے فیصلے کریں۔