غزہ میں فوری اور دیرپا جنگ بندی کےلیے سلامتی کونسل میں قرارداد آج پھر پیش کی جائے گی۔
چند روز پہلے امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی تھی۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے سکیورٹی کونسل میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کی قرارداد پر 15 میں سے 13 ارکان نے حمایت میں ووٹ دیا تھا جب کہ برطانیہ غیر حاضر رہا۔
اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ وڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد کا ڈرافٹ غیر متوازن ہونے کے علاوہ حقیقت سے ہم آہنگ نہیں ہے، اس قرارداد سے معاملے کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکل سکتا۔
تاہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جنگ بندی کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہونے کے بعد سلامتی کونسل پر اقدام کےلیے دباؤبڑھ گیا۔
یو این سیکرٹری جنرل کا آرٹیکل 99 کا سہارا
چند روز قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ میں جنگ بندی کیلئے آرٹیکل 99 کا سہارا لیا تھا۔
انتونیو گوتریس کی جانب سے سلامتی کونسل کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ سلامتی کونسل غزہ میں جنگ بندی پر زور دے، غزہ کی صورتحال اس طرف بڑھ رہی ہے جہاں سے کوئی واپسی نہیں، موجودہ صورتحال پر قابو نہ پایا تو خطے اور عالمی امن پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ غزہ میں وبائی امراض پھوٹنے اور امدادی کام ناممکن ہو جانےکےخدشات ہیں، سلامتی کونسل فوری طور پر اس سنگین مسئلے کے حل پر توجہ دے۔
یو این چارٹر کا آرٹیکل 99 کیا کہتا ہے؟
اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 99 یو این سیکرٹری جنرل کو اختیار دیتا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی توجہ کسی بھی ایسے معاملے کی جانب مبذول کروائیں جس سے بین الاقوامی سطح پر امن و سلامتی کو خطرہ ہو۔
اس سے قبل یکم ستمبر 1959 سے لیکر 31 اگست 1966 تک یو این سیکرٹری جنرل کی جانب سے آرٹیکل 99 کا دو مرتبہ استعمال کیا گیا، ایک مرتبہ 1960 میں کانگو کی صورتحال پر اور دوسری مرتبہ 1961 میں تیونس کی صورتحال پر آرٹیکل 99 کا استعمال کیا گیا۔