میں نے 2007 میں بے نظیربھٹو کی تاریخی وطن واپسی سے ایک ماہ قبل ان سے انٹرویو کے دوران پوچھا تھا کہ آپ الیکشن کے موقع پر وطن لوٹ رہی ہیں تو کیا امریکا کی طرز پر اپنے حریف نوازشریف سے مباحثے کیلئے تیار ہیں؟
چہرے پر مسکراہٹ سجائے بے نظیر بھٹو کا برجستہ جواب تھا کہ ‘میں آپ جیسے نوجوانوں پر چھوڑوں گی۔ یہ دنیا آپ کی ہے۔ جب ہم بڑے ہو رہے تھے تب ایسا نہیں ہوتا تھا مگر ابھی ہم نوجوانوں کے ہاتھ میں ہیں، جیسا آپ کہیں گے ہم ویسا ہی کریں گے’۔
ان 16 برسوں میں جتنے الیکشن آئے، کسی بھی رہنما نے مباحثے کیلئے زور نہ دیا۔ ایسا نہیں کہ ملک میں آزاد یا کسی جانب جھکاؤ نہ رکھنے والے صحافی نہیں لیکن جس بات کی کمی ہے، وہ بے نظیربھٹو ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کیلئے انتخابی مہم تو تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ہی شروع کرچکی ہیں لیکن کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں جس پر کم سے کم بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین جمع ہوں، اُن کے ماضی کو کھنگالا جائے اور منشور پر بات ہو سکے۔
شاید اس ملک کی سیاست بھی کسی مباحثہ سے ماورا بنادی گئی ہے۔ یہاں پھکڑپن اور اسٹیج کی جُگتیں چلتی ہیں، سنجیدہ موضوعات نہیں۔
عشروں پہلے جب یہاں عمران خان کا بت تیار کیا جا رہا تھا تو پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کا یہ حال تھا کہ کسی ٹی وی پروگرام میں جاتے توحریف انہیں ماضی کا وہ کچا چٹھا یاد دلاتے کہ عمران خان مور کی طرح اپنے پاؤں دیکھ کر بغلیں جھانکتے۔
نتیجہ یہ ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کیلئے انتخابی مہم تو تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ہی شروع کرچکی ہیں لیکن کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں جس پر کم سے کم بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین جمع ہوں، اُن کے ماضی کو کھنگالا جائے اور منشور پر بات ہو سکے۔
شاید اس ملک کی سیاست بھی کسی مباحثہ سے ماورا بنادی گئی ہے۔ یہاں پھکڑپن اور اسٹیج کی جُگتیں چلتی ہیں، سنجیدہ موضوعات نہیں۔
عشروں پہلے جب یہاں عمران خان کا بت تیار کیا جا رہا تھا تو پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کا یہ حال تھا کہ کسی ٹی وی پروگرام میں جاتے توحریف انہیں ماضی کا وہ کچا چٹھا یاد دلاتے کہ عمران خان مور کی طرح اپنے پاؤں دیکھ کر بغلیں جھانکتے۔
بعد میں یہ ہوا کہ عمران خان یقینی بنانے لگے کہ جس شو میں وہ جائیں وہاں کوئی اور مہمان نہ ہو تاکہ فرینڈلی سوالات کا جواب چہرے پر دانش مندی سجا کر دے سکیں۔ آج کل وہ جیل میں ’منجھ‘ رہے ہیں۔ کیا پتہ یہ کھوٹا سکہ پھر کب کام آجائے۔
ویسے بھی مباحثے ایسے رہنماؤں کے درمیان ہونے چاہئیں جو نظریاتی لحاظ سے ایک دوسرے کے حقیقی معنوں میں حریف ہوں تا کہ ناظرین اور ووٹرز کو اختلافاتی نکات کو پرکھنے کا موقع ملے۔
پاکستان میں نوبت یہاں تک لائی گئی ہے کہ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کا وہ دور بھی آیا کہ سینٹر رائٹ تصور کی جانیوالی ن لیگ اور سینٹر لیفٹ تصور کی جانیوالی پیپلزپارٹی نے دائیں بازو کی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام، ترے وعدے پر اعتبار کرنے والی ایم کیوایم ، اے این پی اور ق لیگ سمیت ساری اہم و غیر اہم سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکومت بنائی اور وہ بھی خدا خدا کر کے
مباحثہ شاید اس لیے بھی غیراہم ہوگیا ہے کہ یہاں تو قائدین کہتے ہیں کہ ان کے سوالات کا جواب نہیں ملتا۔ ن لیگ کے قائد میاں نوازشریف کا یہ سوال غلط نہیں کہ ‘مجھے کیوں نکالا؟ مگر یہی سوال پیپلزپارٹی بھی پوچھتی ہے کہ 1986 اور 2007 میں تاریخی وطن واپسی کے موقع پر عوامی سمندر جمع کرنیوالی بے نظیر بھٹو کو بچایا کیوں نہ گیا؟
شاید اصل سوال یہ ہے کہ سوالات پوچھے کس سے جائیں؟
اس ملک کا سانحہ صرف یہ نہیں کہ یہاں بانی پاکستان کی ایمبولینس پیٹرول نہ ہونے کی وجہ سے رستے میں بند ہوجاتی ہے۔ لیاقت علی خان کو بھرے جلسے میں قتل کردیا جاتا ہے اور ان کے قاتل کو زندہ پکڑے جانے کے باوجود گولی ماردی جاتی ہے۔
سانحہ شاید یہ بھی نہیں کہ یہاں بھٹو کو پھانسی دی جاتی ہے۔ ایک آمر کا طیارہ تباہ ہوتا ہے تو دوسرے پر خود کش حملے۔ بے نظیر کو دہشتگردی کی نذر کیا جاتا ہے۔ نوازشریف کو کبھی باہر کا رستہ دکھایا جاتا ہے تو کبھی مسیحا سمجھ کر واپسی کی راہ مبینہ طور پر ہموار کی جاتی ہے۔
اس ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سانحات کے باوجود سمت کا تعین نہیں کیا جاتا یا شاید یہ ملک ایک ایسی سمت پر آگے بڑھایا جا رہا ہے جس سمت کے بارے میں یقین کرنے کو لوگوں کی بڑی تعداد تیار نہیں۔
قیام پاکستان سے آج تک سیاسی بھونچال کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا مگر اس کے ساتھ انتہاپسندی کا بھی ایک ناسور ہے جو ہر گزرتے برس گہرا ہورہا ہے۔
مباحثہ ہوتو بات نکلے گی اور بہت دور تلک جائے گی۔ سوال ہوگا کہ 1947 سے اب تک یہاں انتہاپسندی کو پنپنے کس نے دیا اور کیوں؟
روشن خیالات کی حامل، آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ بے نظیربھٹو کی حکومت میں کس نے طالبان کا پتلا بنا کر اس میں جان ڈالی؟ بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی اے این پی کو کس نے مجبور کیا کہ وہ اپنے علاقوں میں ایسے لوگوں کو جگہ دینے پر مجبور ہو جن کے نظریات اے این پی کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی بنیاد بنتے ہوں۔
مباحثہ ہوتا تو شاید اس پر بھی بات ہوتی کہ ملک کو اس ڈگر پر چلنے یا چلانے کا فائدہ کسے ہوگا اور نقصان کسے؟
بے نظیر کے بعد مباحثہ شاید اس لیے بھی نہیں ہوا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے ایک ساتھی پاکستانی قانون دان نے کبھی کہا تھا کہ ‘اگرحقیقت بتادوں تو آپ کے سرکے بال کھڑے ہوجائیں’۔