پراپرٹی کے شعبے کے ماہر روب ڈکس اب اپنے ہزاروں مداحوں سے دن کے کسی بھی وقت کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لیے دستیاب ہیں۔ یہ سب اس ڈیجیٹل دُنیا میں اپنا ’کلون‘ یا ہم شکل تیار کرنے کی بدولت ہو رہا ہے۔
آپ ایک لمحے کے لیے یقیناً فکر مند ہو گئے ہوں گے کہ حال ہی میں ایک بڑی طبی پیشرفت ہوئی ہے جو کسی بھی طرح آپ تک پہنچی ہوگی۔ لیکن ڈکس کو اب تک اپنے حلیے کے مطابق جسمانی کاپی نہیں ملی۔
اس کے بجائے اب ان کی ویب سائٹ پر ایک ڈیجیٹل کلون یعنی اُن کے ڈیجیٹل ہم شکل ہیں۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) سافٹ ویئر کی مدد سے یہ ایک چیٹ بوٹ کی شکل اختیار کرتا ہے جو سوالات کا فوری جواب دے سکتا ہے، جیسے وہ یا ان کے کاروباری شراکت دار روب بینس ان کا جواب ٹائپ کر رہے ہوں۔
مسٹر ڈکس نے اس کلون کو مواد فراہم کر کے تیار کیا، جیسے ان کی کتابیں، سنڈے ٹائمز کا کالم جو وہ روب کے ساتھ لکھتے ہیں، اور ان کا شو دی پراپرٹی پوڈ کاسٹ۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے مصنوعی ذہانت کو اپنی آواز اور لہجے میں لکھنے کی تربیت بھی دی ہے۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ڈکس کہتے ہیں کہ ’ہم ہفتہ وار اخبار کے کالم اور فون ان شو میں پراپرٹی سرمایہ کاروں کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں، لیکن ہمیشہ اس سے کہیں زیادہ سوالات ہوتے ہیں جن کا ہم انفرادی طور پر جواب دے سکتے ہوں۔ اس کے باوجود زیادہ تر جوابات ان ہزاروں مفت تعلیمی مواد میں شامل ہیں جو ہم نے گذشتہ 10 سالوں میں شائع کیے ہیں۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم لوگوں کو ان کے مسائل کے بارے میں تربیت دینے اور ان کے جوابات تلاش کرنے کے لیے اس تمام معلومات کو منظم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جب تک ہم اپنے الفاظ کے ساتھ مصنوعی ذہانت کی تربیت کرتے ہیں، ہمارے سامعین جو کچھ بھی وہ پوچھتے ہیں اس کا اچھا جواب انھیں مل جاتا ہے۔
ڈکس اور بینس اب تقریباً 150 افراد میں سے دو ہیں جنھوں نے کوچ ووکس اے آئی نامی برطانوی کمپنی کے ذریعے اپنے مصنوعی ذہانت کے کلون بنائے ہیں۔ کمپنی کے اب تک کے دیگر گاہکوں میں چیف ایگزیکٹوز، ایک نجومی، ایک غذائی ماہر، ایک فٹنس کوچ اور یہاں تک کہ ایک شادی کاؤنسلر بھی شامل ہیں۔
یہ ایک چھوٹا لیکن تیزی سے بڑھتا ہوا شعبہ ہے، اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والے کلونز کے دیگر فراہم کنندگان میں ساتھی برطانوی بزنس سنتھیسیا اور امریکی سٹارٹ اپ ڈیلفی شامل ہیں۔ خیال یہ ہے کہ صارفین اپنے وقت کو آزاد اور آسان کر سکتے ہیں، ان کے ڈیجیٹل کلون کے ساتھ ان کے کچھ کام کا بوجھ لے سکتے ہیں اور زندگی آسان ہو سکتی ہے، چاہے وہ ملازمین سے بات کرنا ہو، یا گاہکوں کو مشورہ پیش کرنا ہو۔
کوچ ووکس اے آئی کے بانی جوڈی کک کا کہنا ہے کہ ’ہمارے مصنوعی ذہانت کے کلون مفید اور بہترین رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔‘
ڈیلفی صارفین کو ٹیکسٹ پر مبنی چیٹ بوٹ بھی فراہم کرتا ہے، اور ان سے ان چیزوں پر زیادہ سے زیادہ مواد اپ لوڈ کرنے کے لیے کہتا ہے جو انھوں نے پہلے لکھی یا کہی ہیں، بشمول یوٹیوب ویڈیوز، پوڈ کاسٹ، کتابیں یا اخباری مضامین۔
اس مواد کا استعمال کرتے ہوئے، کوچ ووکس کا دعویٰ ہے کہ صارف کا کلون ’پرانے قصوں کو دوبارہ بیان کرنے کے بجائے، نئے حالات پر دلیل دے سکتا ہے۔‘
سنتھیسیا ویڈیو اور آواز شامل کر کے مزید آگے جاتا ہے۔ یہ صارفین کو بات کرنے والا اوتار بنانے کی اجازت دیتا ہے جو سکرین پر ظاہر ہوتا ہے۔ آپ اسے اپنے سر اور کندھوں کی فلم بندی کر کے اور مائیکروفون میں بات کر کے ترتیب دیتے ہیں۔
اس کے بعد آپ کا اوتار کلون 120 سے زیادہ زبانوں میں گاہکوں، یا عملے کے ممبران سے بات کرسکتا ہے۔ فرم کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ’اپنے آپ کا ایک حقیقت پسندانہ ڈیجیٹل ورژن‘ بناتی ہے۔
برطانیہ کے بزنس کوچ روز ریڈفورڈ وہ شخص ہیں جنھوں نے اپنے وقت کا اضافی استعمال کرنے کے لئے اپنا ڈیجیٹل کلون بنایا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں ہر ہفتے گاہکوں کے سوالات کے جوابات دینے میں طویل وقت گزارتی ہوں، لہذا میرے اے آئی ورژن کے ساتھ میرا پہلا ارادہ یہ تھا کہ میرے گاہکوں کو میری شمولیت کی ضرورت کے بغیر، دن کے کسی بھی وقت ان کے سوالات کا فوری اور کسی بھی وقت جواب دینے کی اجازت دی جائے۔‘
یہ سب اچھا لگتا ہے، لیکن منفی پہلو کیا ہیں؟
جرمنی میں مین ہیم سینٹر آف ڈیٹا سائنس میں ماہر معاشیات اور مصنوعی ذہانت کے ماہر پروفیسر فلورین سٹال کہتے ہیں کہ ’دوسروں کے لیے اچھا مواد دستیاب کرنا جنھیں اپنے کیریئر میں یا اپنے کاروبار میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، مثبت اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’پھر بھی، اس کے معیار کے بارے میں توقعات مناسب ہونی چاہئیں۔ کاروباری حالات اکثر اتنے پیچیدہ ہوجاتے ہیں کہ تمام متعلقہ معلومات چیٹ بوٹ پرامپٹ میں فراہم نہیں کی جاسکتی ہیں۔‘
انسٹی ٹیوٹ آف اینالٹکس میں ڈائریکٹر آف ایجوکیشن ڈاکٹر کلیر والش، جو ڈیٹا سائنس پروفیشنلز کے لیے ایک پیشہ ور ادارہ ہے، مصنوعی ذہانت کے کلونز کے بارے میں اور بھی زیادہ محتاط ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جدید دور کی ٹیکنالوجیز اس دنیا کے بارے میں جزوی آگاہی کے ساتھ کام کرتی ہیں جس میں وہ کام کرتی ہیں، اور یہ ناقابل یقین حد تک خطرناک ہوسکتا ہے، انسانی تجربہ لامحدود ہے، اور مشینوں پر بہت سے، بہت سے پیرامیٹرز کے ساتھ کام کرنے کے لیے اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘
ڈکس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مصنوعی ذہانت کے کلون کے صارفین پر زور دینے میں محتاط رہتے ہیں کہ وہ ایک حقیقی شخص کے بجائے ٹیکنالوجی سے نمٹ رہے ہیں۔
’پیسے کے بارے میں بات کرتے وقت میں بہت ذمہ داری محسوس کرتا ہوں، لہذا مجھے فکر تھی کہ مصنوعی ذہانت ‘میں’ کے طور پر ایسی باتیں کہہ سکتی ہے جو بہت سیاہ اور سفید لگتی ہیں، جبکہ حقیقت میں ہر ایک کی صورتحال مختلف ہے.‘
’ہم نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے دیکھا ہے کہ اگر کچھ بھی ہے تو مصنوعی ذہانت احتیاطی تدابیر فراہم کرنے اور یہ کہنے میں بہت آگے جاتی ہے کہ صارف کو مزید تحقیق کرنی چاہیے۔ لیکن یہ دوسرے طریقے سے بہتر ہے۔‘