“اس بار پاکستان کے لیے کرو” مہم پاکستانی سیاست دانوں کی آوازوں میں بھی شامل ہے، بشمول لندن کے نو منتخب میئر صدیق خان۔
لندن کے نئے میئر صدیق خان نے جیو نیوز کی ‘ڈو اٹ فار پاکستان’ مہم کو پاکستان کی معیشت کی بہتری کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کے رکن امین الحق نے پاکستان کے معاشی استحکام کو سیاسی استحکام سے جوڑتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی معیشت کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے۔
سابق وفاقی وزیر نے آئی ٹی سیکٹر میں ٹیکس کی شرح کو صفر تک کم کرنے اور خالص ٹیکس بوجھ بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
جے یو آئی کے رکن ناصر موسیٰ زئی نے کہا کہ معاشی مسائل ایک مستحکم حکومت کے بغیر حل نہیں ہو سکتے جو درحقیقت عوام کی نمائندگی کرتی ہو اور قلیل مدتی سیاسی فوائد کی جنونی حکومت معاشی استحکام پیدا نہیں کر سکتی۔
قومی وطن پارٹی کے سکندر شیرپاؤ نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معیشت اس حال تک کیوں پہنچی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی جاوید حنیف نے مالیاتی خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو ملکی معیشت کے اہم مسائل قرار دیتے ہوئے سیاستدانوں سمیت تمام پاکستانیوں کو ملکی معیشت کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے کا مشورہ دیا۔
دوسری جانب صنعتکاروں، تاجروں اور وکلاء نے بھی ‘ڈو اٹ فار پاکستان’ مہم کی حمایت کی۔
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے معیشت کی بہتری کے لیے قلیل، درمیانی اور طویل مدتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صنعتکار ملک کیوں چھوڑ رہے ہیں اس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
دریں اثناء پیاف کے چیئرمین فہیم الرحمن سہگل نے ملک میں سیاسی استحکام کو معاشی ترقی کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے سمگلنگ سے نمٹنے کے لیے اقدامات جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ماہر اقتصادیات (ر) کامران فضل نے ٹیکس چوری کو پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ قرار دیا اور سرمایہ کاروں کو اعتماد فراہم کرنے کی ضرورت پر بات کی۔
معروف صنعت کار شہزاد علی ملک نے معاشی ترقی کے لیے ایکسٹریکٹو سیکٹر پر توجہ دینے پر زور دیا اور اس بات پر زور دیا کہ اگر پاکستان گندم، کپاس، دالوں اور خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے قومی سطح پر اقدامات کرے تو درآمدات کی مالیت میں 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ کمی