جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائد اعظم کے بارے میں یہ تعریفی کلمات کہے”جناح آہنی عزم کےمالک، کسی قسم کی دھوکہ دہی سے بے نیاز،گہری سوچ کے مالک انسان ہیں

جب گورنر جنرل مقرر ہونے کا وقت آیا تودونوں ملک اپنا اپنا گورنر جنرل چن سکتے تھے۔انڈیا اور کانگریس لیڈر شپ نے فیصلہ کیا کہ زیادہ مراعات حاصل کرنے کے لئے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کا نام بطور گورنر جنرل بھارت ڈومین تجویز کیا اور کانگریس کا خیال تھا کہ مسلم لیگ بھی ایسا ہی کرے گی۔ سب کوتعجب تب ہوا کہ جب مسلم لیگ نے اپنا گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بنانے کے لئے فیصلہ کیا۔
جب لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے وائسرائے ہند کا عہدہ سنبھالاتواُن کی پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ ملاقات ہوئی۔لیڈی ماﺅنٹ بیٹن دوستانہ اطوار میں دسترس رکھتی تھیں۔ انہوں نے نہرو کو اپنے مزاج کا پایا(ایم پی فائل نمبر191)۔نہرو کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے کہا تھا کہ مجھے آپ آخری وائسرائے نہ پائیں گے بلکہ نئے انڈیا کا رہبر پائیں گے اور یہاں سے کانگریس کے ساتھ دوستی شروع ہوگئی اور بھارت کی ہر طرح کی ناجائز امداد کی اور مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔
قائداعظم سے ماﺅنٹ بیٹن کی پہلی ملاقات15اپریل یعنی وائسرائے بننے کے12دن بعد ہوئی اور اپنے ریکارڈ میں قائداعظم کے لئے یہ الفاظ تحریر کئے۔
”جناح آہنی عزم کا مالک، کسی قسم کی دھوکہ دہی سے بے نیاز،گہری سوچ کا مالک انسان ہے۔ “
اس سے قبل قائداعظم محمد علی جناحؒ کے  بارے میں گوپال کرشنا نے یوں اظہار کیا تھا کہ ” جناح بہت گراں قدر صفات کا لیڈر ہے۔ جناح کے اندر ایک اچھا دماغ ہے جو اسے بلندی تک لے جائے گا اور ہندو مسلم اتحاد میں مقام پیدا کرے گا۔“

اسی طرح مسز سروجنی نائیڈونے کہا کہ” جناح ہندو مسلم اتحاد کا پیامبر ہے اور ترقی کی منزل پر ہے”۔
قائداعظم محمد علی جناح کو ماﺅنٹ بیٹن نہرو کی طرح اعتماد میں نہ لے سکے کیونکہ قائداعظم اس کی مکاری سے باخبر ہو چکے تھے۔ ماﺅنٹ بیٹن نے کچھ عرصہ بعد جناح کو ٹوٹاہوا پاکستان دینے کی آفردی۔” یہ میرا طریقہ تھا کہ کسی طرح اس کو قائل کر سکوں اور اپنے مشن میں کامیاب ہوجاﺅں“۔ماﺅنٹ بیٹن اینڈپارٹیشن آف انڈیا“ صفحہ39پر درج ہے کہ ایسا پاکستان دیاجاتا جو کام کا نہ ہوتا۔لہٰذا تقسیم ہند کا پلان اُبھرنے لگا۔ 3جون کاپلان اعلان کے لئے تیار کیا گیا کہ ہندوستان کی تقسیم ہو گی۔ سندھ، بلوچستان،سرحد ،پنجاب مسلم اکثریت والے صوبے ہوں گے اور بلوچستان کے ووٹر شاہی جرگہ کے ممبرہوں گے۔آسام(سلہٹ) اور سرحد میں ریفرنڈم ہو گا اور پنجاب کی تقسیم ہوگی اسی طرح مشرقی حصہ میں بنگال کی تقسیم ہوگی۔
ماﺅنٹ بیٹن پلان لے کر لندن روانہ ہو گئے ان کے ساتھ مشکوک آدمی وی پی منین تھا۔لہٰذا حد بندی کے لئے قائداعظم نے21مئی1947ءکو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اپنے 3نکات کی وضاحت اس طرح کی۔
1۔ مسلم لیگ مشرقی اور مغربی حصہ کے لئے ایئرکوریج چاہے گی تا کہ ایک حصہ دوسرے حصہ سے بذریعہ ہوائی جہاز منسلک ہوسکے اورآمدورفت میں آسانی ہو۔
2۔ اینگلو پاکستان تعلقات کا فیصلہ مجلس قانون ساز آف پاکستان کرے گی۔
3۔ پنجاب اور بنگال صوبے متحد رہیں اور پاکستان کے ساتھ ملا دیئے جائیں۔
مگر ماﺅنٹ بیٹن کی خواہش پوری نہ ہوئی کہ انڈیا ایک رہے۔ وہ لولا لنگڑا پاکستان دینا چاہتا تھا تاکہ مسلمان جلد ہی ایک انڈیا میں مدغم ہو جائیں یا کیبنیٹ مشن پلان کو مان لیں۔جناح کہاں ایسا پاکستان قبول کرنے والے تھے۔ آپ نے مخالفت کی کہ مجھے خود مختار پاکستان چاہئے۔ چھوٹا ہو مگر اپنا ملک اپنی قوم کے لئے چاہئے۔ لہٰذا ماﺅنٹ بیٹن پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر رضا مند ہو گئے اور30اپریل1947ءکو پلان تیار کرلیا۔
اصل میں جب سے ماﺅنٹ بیٹن صاحب بہادر انڈیا آئے انکی کوشش رہی کہ وہ مسلمانوں اور مسلم لیگ کو نقصان پہنچائیں کیونکہ اسے کانگریس اور سکھ لیڈرز کی پشت پناہی حاصل تھی۔وائسرائے کی ہر رپورٹ لیگ کے خلاف تھی۔لہٰذا قائداعظم نے11مئی1947 کو ایسوسی ایٹ پریس آف امریکہ کو انٹرویو دیا۔ کانگریس کی خواہش تھی کہ بنگال اور پنجاب کے صوبوں کی تقسیم نہ کی جائے۔وجہ یہ بتائی گئی کہ اقلیت کو برابر کے حقوق میسّر نہ آئیں گے۔
قائداعظم نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو باور کرایاکہ مسلم لیگ کسی صورت میں نہیں چاہتی کہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی جائے(ڈان 13مئی1947ء)کیونکہ ان صوبوں کے ذریعے اپنی اقدار ، ثقافت،تمدّن ،تاریخی ورثہ ، اقتصادی کاروبار جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں ان میں ٹوٹ پھوٹ ہو جائے گی۔ انسانی جانوں کا ضیاع ہو گا یہ صرف چند ہندوﺅں اور سکھوں کے لئے صوبہ کی تقسیم ہوگی باقی صوبوں میں مسلمان اقلیت میں رہیں گے۔
2جون کو ماﺅنٹ بیٹن نے کہا”میں غیر منقسم انڈیا کا حامی تھا مگر اب تقسیم کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا“۔تاریخی اعلان تقسیم ہندکے مطابق14اگست1947ءکو پاکستان معرضِ وجود میں آیا اوراس طرح قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل آف پاکستان ہوئے۔
آپ برطانوی اور ہندو سازشوں کا مطالعہ کریں کیا وہ ہم پر وار نہ کرتے اگر ماﺅنٹ بیٹن گورنر جنرل پاکستان ہوتے۔قائداعظمؒ کا فیصلہ سچ ثابت ہوا۔پھر لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو مسلمانوں سے کیا دلچسپی تھی کہ مسلمانوں کے مفاد کو تقویت دیتے۔
پاکستان کا مطلب تو یہ تھا کہ مسلمانوں کی تعلیمی،اقتصادی،سماجی،سیاسی، معاشرتی، مذہبی ترقی ہوگی۔مسلم تاجر میدان میں آئیں گے۔مضبوط قوم جہاد اور امن کا سوچے گی۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب قیادت بااختیار، قابل اعتماد، دیانتدار اور مخلص لیڈر کی ہو۔
لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے ذہن کے کسی حصہ میں ضعیف قسم کاچھپا ہوا فارمولا تھاکہ کسی طرح ٹرانسفر آف پاور ہو جائے مگر ساری طاقت کا سرچشمہ وائسرائے کے پاس رہے۔ایک پارٹی نے تو تجویز قبول کر لی مگر دوسری پارٹی کو سوچ بچار کی ترغیب دی کہ انکار نہ کرے وجہ یہ بتائی گئی کہ:
اولاً :۔پاکستان کے پاس کوئی بھی تربیت یافتہ تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر نہیں ہے۔
دوئم:۔ملٹری فنڈز اور دیگر امور انڈیا میں ہیں۔ ان کی ادائیگی جلد ہو سکے گی اگر ایک گورنر جنرل ہو تو یہ سارے کام آسان ہوسکیں گے۔کیا تقسیم کے اعلان کے بعد ساری چیزیں ماﺅنٹ بیٹن صاحب دے دیتے اور باﺅنڈری کمیشن کو غلط ہدایات نہ دیتے۔ملک میں قتل و غارت کو روکتے اگر دیانتداری ہوتی۔ چونکہ نیت میں دیانتداری نہ تھی۔ لہٰذا قائداعظم نے اس سکیم کا بغور مطالعہ کیا تو کامن گورنرجنرل کے کردار ،فعل یا فیصلہ پر شک ہوا جو لازمی تھا کیونکہ ہمیشہ انکا جھکاﺅ کانگریس کی طرف رہتا تھا۔
دوسری طرف نئی مملکت جس کے لئے سالوں سے محنت ہو رہی تھی، اس کی سربراہی اگر اس کے اپنے لیڈر کی نہ ہو جس پر قوم کو اعتماد ہے تو کامیاب نہیں ہوگی۔ ماﺅنٹ بیٹن کو بڑی امید تھی کہ وہ جناح کو راضی کرلیں گے مگر جناح کے سامنے ان کی دال نہ گلی۔ وہ دونوں ممالک کے گورنر جنرل نہ ہو سکے۔
ماﺅنٹ بیٹن 22اپریل1947ءسے تیار تھے۔انہوں نے یہ بات کر شنامینن سے دوستانہ ملاقات میں کی۔ اگر کانگریس لیڈر شپ نے پاکستان کی ڈومین درجہ کوقبول کر لیا تو بھارت علیٰحدہ ڈومین ہو جائے گااور وہ خود دونوں نئی ریاستوں کے قانونی اعتبار سے گورنر جنرل ہو جائیں گے(ماﺅنٹ بیٹن پیپرز ،فائل 192)۔کچھ عرصہ کے بعد معاملہ پیچیدہ ہوتا گیا۔لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی ملاقات محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر ہوئی کہ گورنر جنرل دونوں ممالک کا ایک ہو اور وہ میں ہوں گا۔کانگریس نے او کے کردیا ہے۔قائداعظم نے کہا ہے ہم نے اس معاملہ پر بڑا غور کیا ہے اور اس فیصلہ پر متفق ہوئے ہیں کہ دونوں نئی ریاستوں کا اپنا اپنا گورنر جنرل ہو اور ملک کی نمائندگی کے لئے آپ سپریم کمانڈر بن کر اپنا کردار دونوں ممالک کے معاملات سلجھانے میں ادا کرسکیں گے لیکن ماﺅنٹ بیٹن چاہتے تھے کہ وہ دونوں ممالک کے گورنر جنرل ہوں۔
حالانکہ دونوں گورنر جنرلوں کے اوپر ایک اور بڑا عہدہ ہو جانا تھا۔اصل میں ایک خفیہ سازش تھی جس سے پاکستان کو نقصان پہنچانامقصود تھا۔یہ سب کچھ کیا گیا۔مگر ماﺅنٹ بیٹن قائداعظمؒ کو معقول پروگرام نہ دے سکے اور اعتماد کی صورت پیدانہ ہوئی۔ قائداعظمؒ نے ان کی تجویز سے اتفاق نہ کیا اور یہ قائداعظمؒ کی ہی بصیرت تھی کہ کوئی مائی کا لعل اُن کودھوکہ نہ دے سکا۔
ماﺅنٹ بیٹن نے قائدکو پھر کہا کہ دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا۔(فائل نمبر194) مگر قائداعظم اپنی جگہ (مؤقف)قائم رہے اور یہ پاکستان کے حق میں تھاکہ ماﺅنٹ بیٹن پاکستان کے گورنر جنرل نہ ہوئے اور قائداعظم محمد علی جناحؒ باوقار طریقے سے آزاد مملکت پاکستان کے گورنر جنرل ہوئے۔

پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی کی کتاب”مسلم لیگ اور تحریک پاکستان “سے اقتباس

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top